اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق | 11 ستمبر کے واقعے کے بعد
23 سال کا عرصہ گذر چکا؛ کہا گیا کہ القاعدہ نے اس واقعے کا منصوبہ بنایا اور اس
پر عملدرآمد کیا لیکن اس کے بعد امریکی محققین بھی ان الزامات میں شک و تردد کا
اظہار کرنے لگے کیونکہ القاعدہ کی طاقت و استعداد کے پیش نظر اس الزام کی تصدیق نہیں
ہو پا رہی تھی۔ انہوں نے اس پر متعدد سوالات اٹھائے جن کا تاحال جواب نہیں دیا جا
سکا ہے۔ اگر مان بھی لیں کہ القاعدہ کی سلفی تکفیری جماعت اس واقعے میں ملوث تھی
پھر بھی یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ اس جماعت کو ـ جو افغانستان پر سوویت روس کے
قبضے کے دوران "راہ آزآدی کے مجاہدین" کے طور پر لڑ رہی تھی ـ ریگن
انتظامیہ کی ہمہ جہت حمایت حاصل تھی۔
وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے 11 ستمبر کو عالمی تجارتی ادارے کی جڑواں عمارت پر حملے کے 9 دن بعد امریکی کانگریس میں "دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ" کا نظریہ ('The Doctrine of 'Global War on Terror) پیش کیا اور اراکین کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ "القاعدہ" سے شروع ہوتی ہے لیکن یہیں ختم نہیں ہوگی۔ یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ دنیا بھر میں تمام دہشت گرد گروپوں کا سراغ لگا کر ان کا صفایا نہ کیا جائے"۔ 11 ستمبر کے واقعے کا ابھی مہینہ بھی نہیں گذرا تھا کہ بش نے سات اکتوبر 2001ع کو، اس بہانے افغانستان پر حملے کا حکم جاری کیا کہ یہ ملک اسامہ بن لادن کو امریکہ کی تحویل میں نہیں دینا چاہتا تھا۔ بش نے ایک سال بعد، مورخہ 10 اکتوبر 2002ع کو، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنانے اور ذخیرہ کرنے کے بہانے، کانگریس سے عراق پر حملے کی اجازت حاصل کر لی اور 19 مارچ 2003ع کو ـ سلامتی کونسل کی باضابطہ اجازت حاصل کئے بغیر ـ عراق پر حملہ کیا؛ لیکن بعد میں، عراق میں بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں پایا گیا!
براؤن یونیورسٹی میں جنگی اخراجات کے پراجیکٹ (Costs of War project) کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں ـ افغانستان، عراق، شام، لییبا، صومالیہ اور یمن میں ـ بلاواسطہ اور بالواسطہ طور پر 50 لاکھ انسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور امریکی منصوبے کے بھینٹ چڑھنے والے افراد کی غالب اکثریت کا امریکہ کے اعلان کردہ دہشت گرد جماعتوں سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا اور زیادہ تر مقتولین عام شہری تھے اور ان میں بہت بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ براؤن یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ کی سرکردگی میں مبینہ دہشت گردی کے خلاف جنگ مغربی ایشیا، شمالی افریقہ، وسطی ایشیا کے لئے المناک نتائج کا باعث ہوئی: جیسے بنیادی ڈھانچوں کی تباہی، عدم استحکام، معاشی شکست و ریخت، اشیائے خورد و نوش کی قلت اور قحط، اور مسلحانہ اور غیر مسلحانہ تشدد میں شدید اضافہ وغیرہ؛ جن کا ان علاقوں کے عوام کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پچاس لاکھ انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگوں میں تین کروڑ 80 لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں اور امریکی اور مغربی ماہرین کے خیالات کے مطابق، ان جنگوں میں نشانہ بننے والے ممالک کے بنیادی ڈھانچوں کی تباہی کے علاوہ، امریکہ کے ٹیکس دہندگان کو بھی 8000 ارب ڈالر کے اخراجات برداشت پڑے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مبینہ امریکی حکمت عراق اور افغانستان میں عملی طور پر بھاری شکست سے دوچار ہوئی، امریکہ کو افغانستان سے سراسیمگی کی حالت میں بھاگنا پڑا، ٹرمپ نے کہا: "آٹھ ٹریلین اخراجات برداشت کرنے کے باوجود اس خطے میں شکست کھا گئے ہیں" اور بائیڈن نے بھی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: "ہم القاعدہ سے نمٹنے کے لئے، مزید کسی ملک پر حملہ نہیں کرسکتے"۔ دہشت گردی کو ایک خاص [امریکی] زاویئے سے دیکھنا، اسلحے کے زور پر "جمہوریت" ٹھونسنا، اور باہر سے طاقت کے ذریعے "حکومت ـ قوم" (یا قومی حکومت Nation state) مسلط کرنا اور متعلقہ ممالک کے سیاسی، سماجی اور معاشی ساخت کو نظرانداز کرنا ـ او اس راہ میں طاقت اور اسلحے کا استعمال ـ وہ مسائل تھے جن کی وجہ سے امریکہ کو شکست کھانا پڑی اور ناکام ہونا پڑا۔
اہم سوال
11 ستمبر کے متنازعہ واقعے کے بہانے، مبینہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے 23 سال کے اس عرصے میں ملینوں بے گناہ انسانوں کے قتل، لاکھوں انسانوں کے زخمی اور معذور ہونے، کروڑوں انسانوں کے بے گھر ہونے اور کئی ممالک کی وسیع پیمانے پر تباہی ـ اور امریکہ کے ٹیکس دہندگان کے آٹھ ٹریلین ڈالر کے اخراجات ـ کے باوجود، بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا سنہ 2024ع کا امریکہ 11 ستمبر کے واقعے سے پہلے کے امریکہ سے زیادہ محفوظ اور پرامن ہے؟ امریکی اداروں، حکام، ذرائع ابلاغ اور مبصرین کا جواب نفی میں ہے۔
یہ درست ہے کہ امریکہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا دعوی کرکے مغربی ایشیا میں لڑ رہا تھا لیکن اس کا اصل مقصد امریکہ کی سلامتی کا تحفظ تھا، "اندونی دہشت گردی" اس ملک کے لئے عظیم ترین خطرہ بنتی جا رہی تھی۔ امریکہ میں "اندرونی دہشت گردی" سے مراد نسل پرست اور دائیں بازو کی انتہاپسند تنظیمیں ہیں جو پہلے سے اس ملک میں موجود تھیں لیکن حالیہ برسوں کے دوران، بالخصوص ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد، یہ تنظیمیں امریکہ کی سیاسی اور معاشرتی ماحول میں، کھمبیوں (Mushrooms) کی طرح اگ آئی ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے سنہ 2021ع میں، دہشت گردی کے خطرے کے بارے میں، کہا تھا کہ "داعش اور القاعدہ نہیں، بلکہ سفید فاموں کی بالادستی کے قائل افراد، امریکہ کے لئے مہلک ترین خطرہ ہیں؛ یہ صرف میری تشخیص نہیں بلکہ ٹرمپ کی حکومت میں بھی اور میری حکومت میں بھی، امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کی تشخیص ہے"۔
امریکہ کی داخلی سلامتی کے وزیر الیجینڈرو مایورکاس (Alejandro Mayorkas) نے کہا تھا: "ہم نے اپنی توجہ بہت حد تک اندرونی تشدد پسندانہ انتہاپسندی پر مرکوز کر رکھی ہے۔ یہ سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس خطرے کا تعلق دہشت گردی سے ہے جس کا امریکہ کے اندر ہی ہمیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ہم اب تک کافی سارے اقدامات عمل میں لا چکے ہیں اور اس سے بھی زیادہ اقدامات عمل میں لانے کے لئے پرعزم ہیں"۔
جو بائیڈن کی صدارت کے اس آخری سال میں بھی امریکہ کو اندرونی دہشت گردی امریکہ کے لئے مہلک ترین خطرہ سمجھی جاتی ہے۔ ایف بی آئی نے اعلان کیا ہے کہ وہ 13 جولائی کو ڈونلڈ ٹرمپ پر فائرنگ کا ـ اندرونی دہشت گردی کے طور پر ـ جائزہ لے رہی ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ امریکہ سیاسی لحاظ سے شدت کے ساتھ چند قطبی (اور تقسیم) ہو چکا ہے اور سیاسی تشدد، حتی کہ اس کی انتہاپسندانہ شکل یعنی عملی دہشت گردی اور خانہ جنگی، اس سیاسی ماحول کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ اگر ٹرمپ فائرنگ کے اس واقعے میں مارے جاتے تو ان کے بہت سارے حامی ـ جن میں مسلح گروپ، دائیں بازو کے انتہاپسند، نیز سفیدفاموں کی بالادستی کے قائل جماعتوں پر مشتمل ہیں ـ اس یقین تک پہنچ جاتے کہ امریکہ کا سیاسی نظام انہیں امریکہ کے سیاسی ماحول سے ہٹا دینا چاہتا ہے، چنانچہ وہ اسلحہ اٹھانے کو اپنی سیاسی حیات کے تحفظ کا آخری حربہ سمجھ بیٹھتے اور خانہ جنگی کا آغاز ہوتا۔
بہرحال امریکہ دہشت گردی کے خلاف اپنی مبینہ عالمی جنگ میں بھاری شکست سے دوچار ہؤا سروے رپورٹوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی معاشرہ اندرونی طور پر بھی سیاسی تناؤ اور اس کی انتہائی شکل ـ یعنی سیاسی تشدد ـ کی طرف بڑھ رہا ہے جس کا ایک مظہر حکام اور عہدیداروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر منظر سے ہٹانے کی کوشش ہے اور اس کا ایک ثبوت صدارتی انتخابات کے نامزد امیدوار پر دن دہاڑے فائرنگ کا واقعہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ملک اندرونی دہشت گردی سے نمٹنے میں بھی بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: سید محمد امین آبادی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔
110